Meray Safar Namay - Mazeno Base Camp - Nanga Parbat

میرے سفرنامے  - مزینو بیس کیمپ (نانگا پربت) - پاکستان

 (قسط اوّل)

سید عرفان احمد، جون 2013

مجھے لگتا ہے میرے ارد گرد کے لوگ اور یار دوست مجھے ایک ظالم ٹریکر سمجھتے ہوں گے۔ میری باتوں اور تصویروں سے یہ سب لوگ متاثر ہو جاتے ہوں گے۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میں ظالم تو کیا ایک مظلوم ٹریکر بھی نہیں۔ جنہوں نے میرے ساتھ ٹریکنگ کی ہے وہ یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے۔ پیچھے رہ جانے والوں میں سے میں ہمیشہ اوّل آتا ہوں۔ وہ الگ بات کہ کبھی غرور نہیں کیا۔ ذرا سی چڑھائی آ جائے تو میری بس وہیں رکنے لگتی ہے۔ مجھے ٹریکر ہونے یا اِس کے ارد گرد بھی پھٹکنے کا کوئی دعویٰ نہیں ۔۔۔۔ ہاں مجھے پہاڑوں اور وادیوں کو دیکھنے اور اُن کے رنگ اپنے اندر سمو لینے کا ٹھرک ضرور ہے۔ میں سمجھتا ہوں پہاڑوں کے سینوں پر چڑھنا، رستوں پر قدم مارنا، وادیوں میں آوارہ گردی کرنا، اور تنہائی کی آگ میں سُلگتی جھیلوں میں پتھر پھینکنا ہم پر قرض ہے۔ یہ پہاڑ منتظر رہتے ہیں کہ کب لوگوں کے جمگٹھے اُنہیں دیکھنے اور سَر کرنے کو آئیں۔

اپریل ۲۰۱۳ء میں نیچر ایکسپلوررز کے ساتھ میرا پہلا ٹرپ پنج پیر کے پہاڑوں پر جانا تھا۔ اِس ٹرپ پر میں نے اپنی چکنی چُپڑی باتوں سے وقاص صدیق کو کافی متاثر کر لیا۔ تب سے اب تک اُس سے یاری سی بن گئی ہے۔ اگلا ٹرپ مئی میں اِس گروپ کے ساتھ ٹھنڈیانی سے نتھیا گلی کا کیا جو کئی حوالوں سے یادگار بن گیا۔ پھر میں نے وقاص سے سنا کہ مزینو بیس کیمپ اور نانگا پربت رُوپل فیس جانے کا پروگرام بن رہا ہے۔ میری بے چین روح کو کہاں سکون آنا تھا، سو میں نے بھی جانے کا اردادہ کر لیا حالانکہ میں نے مزینو کا پہلے کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ یاسر خورشید کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ سارا پروگرام بنائے اور جانے کے خواہشمندوں کی مناسب جسمانی اہلیت کی جانچ پڑتال بھی کرے۔

 حسبِ عادت میں نے بھی اس میں اپنی ٹانگ گھسیڑنی شروع کر دی اور اِدھر اُدھر سے معلومات اکٹھی کر کے یاسر پر اپنا رعب جمانا شروع کر دیا۔ اسی دوران علم ہوا کہ مزینو پاس بھی ایک جگہ ہے۔ مشہور و معروف کوہ نوردوں سے رابطے کر کے پاس کو عبور کرنے کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ محمد عبدہٗ کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے جس سے بہت مفید معلومات ملیں۔ یہی خیال تھا کہ مزینو بیس کیمپ تک تو جا ہی رہے ہیں، لگے ہاتھوں مزینو پاس بھی پھڑکا آئیں گے۔ بھلا ہو عمر جاوید کا جس نے سمجھانے کی بے سُود کوشش کی کہ یہ مزینو پاس ہے نہ کہ خالہ جی کا گھر! بڑے بڑے یہاں سوچ سمجھ کر جاتے ہیں۔ منفی درجہ حرارت، برف، اور مشکل چڑھائیاں اور اُترائیاں ۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ وہاں ملے گا۔ مگر مزینو پاس کا بھوت ایسا ذہن پر سوار ہوا تھا کہ عمر کی یہ سب باتیں اُس بھوت کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ مجھے اپنی حالت کا بخوبی اندازہ تھا کہ میری بس کہاں بس ہو جاتی ہے مگر اندر سے یہ خواہش ضرور تھی کہ کوشش ضرور کرنی ہے۔ تفصیلات اور باریکیاں اکٹھی کرتے ایسا جنون سر پر سوار ہوا کہ یہ نعرہ زبان پر جاری ہو گیا:۔

مزینو پاس نہ کیا تو پھر کیا جیا


حالت یہاں تک جا پہنچی کہ سوتے میں بھی مزینو پاس ہی ذہن پر سوار رہنے لگا۔ وقاص سے ہاٹ لائن پر رابطہ رہتا تھا۔ یہ نعرہ میں نے اُس کو بتایا تو اُس پر بھی اِس کا جادو چل گیا۔ وقاص اور میں اکثر و بیشتر اِس نعرے کا وِرد کرتے رہتے۔ یاسر نے اس ٹرپ کو ترتیب دینے سے لے کر ارکان کی جسمانی ورزشیں کروانے تک بہت محنت کی۔ میں نے تو بس لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کی۔ اس ٹریک کا جس شدت سے انتظار رہا اور اس کے لئے میں نے جتنی تیاری کی وہ میں ہی جانتا ہوں۔

بارہ جون کو اچانک پیٹ کی سخت انفیکشن ہو گئی۔ بخار، اُلٹیاں، پیٹ خراب، اور سردی لگنے لگی۔ کمزوری اتنی ہو گئی کہ دس، بارہ گھنٹے بستر سے اُٹھا نہ گیا۔ رہ رہ کر دل میں یہی خیال آئے کہ ایسی حالت میں بارہ دنوں کا ٹریکنگ ٹرپ کیسے ہو گا؟ اتنی شدت سے جس ٹرپ کا انتظار تھا، اُس پر جانا نا ممکن نظر آنے لگا۔ دل ہی دل میں استغفار بھی پڑھی کہ انسان خود پر یا زمینی زرائع پر کس قدر توکّل کر بیٹھتا ہے۔ جب حالت میں کوئی خاص افاقہ نہ ہوا تو اس کو خدا کی رضا سمجھ کر اور دل پر پتھر رکھ کر میں نے وقاص کو بتا دیا کہ میری یہ حالت ہے اور میں ٹرپ پر نہیں جا سکوں گا۔ وقاص اور غزل دونوں نے تسلیاں دیں کہ فکر نہ کروں ٹھیک ہو جاؤں گا، مگر مجھے اپنی حالت دیکھ کر ایسا لگ نہیں رہا تھا۔ بستر پر پڑا دعائیں کرتا رہا ۔۔۔ اور کر بھی کیا سکتا تھا؟ اگلے دن کچھ حالت سنبھلی مگر زیادہ نہیں۔ دل ماننے کو تیار نہیں تھا کہ اس ٹرپ پر میں نہیں جا سکوں گا۔

 رات تک حالت ذرا اور بہتر ہو گئی تو میں نے اعلان کر دیا کہ میں کل اسلام آباد جا رہا ہوں۔ بیگم جو مجھے ’’لا علاج‘‘ سمجھ کر ہاتھ جھاڑ بیٹھی ہے، اُس نے تو کچھ نہ کہا مگر والدہ نے سمجھا کہ بخار شائد میرے دماغ کو چڑھ گیا ہے جو ایسی بہکی باتیں کرنے لگا ہوں۔ میری سنجیدگی دیکھ کر وہ بھی سنجیدہ ہو گئیں اور کہنے لگیں کہ اپنی حالت دیکھوں اور باتیں دیکھوں! میں نے کہا ٹریکنگ شروع ہونے سے پہلے دو دن پڑے ہیں، ٹھیک ہو جاؤں گا۔ مگر وہ میرے جانے پر راضی نہیں ہو رہی تھیں۔ ماؤں کا دل بڑا نرم ہوتا ہے، بڑی آسانی سے موم ہو جاتا ہے۔ گھر سے یہ کہہ کر نکل آیا کہ اگر مجھے لگا کہ میں ٹریکنگ نہیں کر سکوں گا تو سفر میں جہاں بھی ہوا واپس آ جاؤں گا۔ یہ ایک لارا تھا جو ماں کے دل کو بڑی آسانی سے لگ گیا۔

آخر ۱۴ جون ۲۰۱۳ء کا وہ دن بھی آن پہنچا جس کا تمام جانے والوں کو شدت سے انتظار ہوگا۔ ہم سب پنڈی میں نیٹکو بس کے اڈے پر اکٹھے ہو رہے تھے۔ میرے لئے کئی نئے چہرے تھے اور اُن کے لئے میں بھی ایک نئی روح تھا جس سے اُن کا واسطہ پڑنا تھا۔ کچھ پرانے پاپی بھی اُدھر مل گئے جیسے غزل جبیں اور شیر علی وغیرہ۔ غزل تو خیر نیچر ایکسپلوررز گروپ کی ایک مستقل پاپی ہے، جبکہ شیر علی بھی ایک پکا پاپی ہے۔ اِن اور دوسرے پاپیوں کا تفصیلی ذکر آگے جا کر کروں گا۔ جب تک بس نہیں آئی تب تک ایک دوسرے سے گھلنے ملنے، سلام دعا، اور پرانی یادوں سے وقت گذارا۔ بس آئی، سامان رکھوایا، اور پونے نو بجے ہم لوگ ایک حسین کھجّل خواری کے لئے چل پڑے جو ہم نے پیسے دے کر مول لی تھی۔

نشستوں پر براجمان ہونے کے بعد آہستہ آہستہ سب کی زبانوں کے تالے کھلنے لگے۔ اونچی آواز میں باتوں اور قہقہوں سے دوسرے مسافروں کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ اُن سے آج کیا غلطی سر زد ہو گئی ہے۔ مسافر گردنیں موڑ موڑ کر پیچھے دیکھنے لگے کہ بھانڈوں کا یہ ٹولہ کہاں سے آ گیا ہے؟ اُن مڑی گردنوں کی پروا کئے بغیر ہم سب کمال بے نیازی سے اپنی خوش گپّیوں میں مصروف رہے۔ ٹرپ کے جو ارکان گھر سے سنجیدہ اور سوبر بننے کی ٹوپیاں پہن کر آئے تھے وہ ٹوپیاں آہستہ آہستہ اترنے لگیں۔ جس کسی نے اتارنے میں پس و پیش کی تو دوسروں نے زبردستی وہ ٹوپی اتروا دی ۔۔۔ وہ بھلا کہاں
بخشنے والے تھے۔ اِن آوازوں میں نمایاں آوازیں فرحان سڈل اور راحیل نیازی کی تھیں۔پھر تعارف کا مرحلہ چلا جس نے ایک اور باب کھول دیا۔ تعارف کروانے والے سے سوالات کی بوچھاڑ، چھیڑ چھاڑ، اور جملے بازیوں سے یہ محفل کافی دیر تک گرم رہی۔ بس چلتی رہی ۔۔۔ رات ڈھلتی رہی ۔۔۔ سڑک لپٹتی رہی۔ چار، پانچ گھنٹوں بعد جب سب کی بیٹریاں ڈاؤن ہونے لگیں تو کسی کی گردن ایک طرف ڈھلکی تو کسی کی دوسری طرف۔

ہماری بس کا ڈرائیور بھی شیر کا بچہ تھا۔ تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ سڑک پر اور بھی کرتب دکھاتا رہا۔ علی الصبح فجر کی نماز کے لئے بس رکی۔ باہر نکل کر دیکھا تو روح میں اتر جانے والی خوشگوار صبح تھی۔ کچھ دیر پہلے ہی بارش رکی تھی۔ ارد گرد کے پہاڑوں پر سفید بادل، ہلکی سی خنکی، اور فضا میں ایک دلکش تازگی ۔۔۔ یہ شاہراہِ قراقرم پر ہمارا پہلا خوشگوار پڑاؤ تھا۔ یہاں سے چلے تو ساڑھے چھ بجے کر قریب بشام جا کر بس رکی۔ چھوٹا سا ہوٹل تھا۔ اتنے مسافروں کا وزن نہ سہہ سکا۔ رات کے بچے سالن اور روٹیوں سے انہوں نے ہماری تواضع کی۔ انڈے ایسے فرائی کئے ہوئے تھے کہ مرغی دیکھے تو شرم سے مر جائے۔ خیر یہ سب بادلِ نخواستہ کھایا اور چل پڑے۔ نیا دن چڑھ چکا تھا، بیٹریاں چارج ہو چکی تھیں، تعارفی سفارتی مراحل طے پا چکے تھے، سنجیدگی کی ٹوپیاں اتر چکی تھیں۔ لطیفوں، خوش گپّیوں، جملہ بازیوں، اور قہقہوں کے ایک نئے سفر کا آغاز ہو گیا تھا۔

پہاڑوں کے بیچ، دریائے سندھ کے کنارے چلتی شاہراہِ قراقرم ایک خوبصورت سڑک ہے۔ چکراتی، بل کھاتی یہ سڑک اپنے سینے پر سفر کرنے والوں کو سارے خوبصورت نظاروں کا لطف مہیا کرتی ہے۔ دریا کبھی پُھدک کر دائیں طرف تو کبھی بائیں طرف آ جاتا ہے۔سبزے اور برف سے لدے پہاڑ نظروں کو واپس لوٹانے سے پہلے اُن میں ترو تازگی اور دلکشی اُنڈیل دیتے ہیں۔ یہ نظریں جب آنکھوں میں واپس لوٹتی ہیں تو کچھ اور ہی ہو جاتی ہیں۔

ساڑھے سات بجے کے قریب بشام سے تھوڑا آگے جا کر بس رک گئی۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔ پتہ چلا کہ پتھر گرنے کی وجہ سے سڑک بند ہو گئی ہے اور کُھلنے میں تین، چار گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ یہ صدمہ بہرحال برداشت کرنا تھا اور وقت بھی کاٹنا تھا، ایک ٹولی کسی طرف نکل گئی تو دوسری کسی اور طرف۔ کچھ صابر، شاکر بن کر بس میں ہی بیٹھے رہے۔ خدا خدا کر کے ساڑھے بارہ بجے بس چلی تو کچھ جان میں جان آئی۔ وہی رُکا ہوا شغل میلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ اور تھا ہی کیا کرنے کو! قہقہوں اور اونچی آواز میں باتوں سے ہی یہ سفر کٹ رہا تھا ورنہ اتنا لمبا سفر چپ سادھ کر کبھی نہ ختم ہوتا۔ بس کے دوسرے مسافر ہماری اصلاح سے مایوس ہو کر اور ہماری عاقبت پر فاتحہ پڑھ کر مجبوراً بیٹھے رہے ۔۔۔ اور بیچارے کرتے بھی کیا؟

چار بجے بس دوپہر کے کھانے کے لئے داسُو رُکی۔ وہاں کے ایک مشہور و معروف ہوٹل میں گئے تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگے ایک تو کھانا کم ہے دوسرا وہ صرف اپنی لگی بندھی کمپنیوں ہی کو جگہ دیتے ہیں۔ وہاں دو، تین ہی ہوٹل تھے۔ ہم ایک اور ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہوٹل کے لڑکوں نے ہمیں اپنی طرف آتے دیکھ کر دُور ہی سے کہنا شروع کر دیا کہ کھانا ختم ہے۔ ہم بھی اپنی کانوں کی جوئیں مار کر اندر چلے گئے۔ محدود پیمانے کے اِن ہوٹلوں پر اگر معمول سے ایک، دو بسیں زیادہ رک جائیں تو کھانا ختم ہو جاتا ہے۔ کافی رش تھا۔ ’’کھانا ختم ہے‘‘ کی آوازیں کئی طرف سے بلند ہو رہی تھیں۔ سالن اُس کو ملتا جس کے پاس روٹی ہوتی اور روٹی اُسے ملتی جس کی پلیٹ میں سالن ہوتا۔ ہمارے کہنے پر بس کے ڈرائیور نے ہوٹل کی انتظامیہ سے سفارش کی تو پچھلے صحن میں ہمیں جگہ دے دی گئی۔ ایک عجیب دلکش اور رُومانوی بعد دوپہر کا منظر تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی، سُرمئی بادل اپنے پر پھیلائے سورج کے آگے تنے کھڑے تھے، ارد گرد کے پہاڑوں اور نیچے تک آئے سفید بادل اپنی مستیوں میں مصروف تھے، تازگی سے بھری ہوا درختوں کی ٹہنیوں اور پتّوں سے اٹھکیلیاں کرتی پھر رہی تھی۔ یہ حسین منظر آنکھوں سے اتر کر اندر ذہن پر نقش ہوتا جا رہا تھا۔ یہ خوبصورت نظارے ہر آنے والے کو قدرت کی اِن بِن مانگے عطا کی ہوئی نعمتوں کی طرف توجہ دلا رہے تھے۔ یہ سارے رنگ دل و دماغ پر اترتے چلے جا رہے تھے۔

سب کو ہی کافی بھوک لگ رہی تھی۔ تین، چار لوگوں کے لئے ایک چھوٹی سی پلیٹ میں محدود سالن اور چند روٹیاں آ گئیں۔ اِسی کو غنیمت سمجھا اور صبر و شکر کر کے کھا لیا۔ یہ نظارہ بھی آنکھوں نے دیکھا کہ ہر کوئی خود کم کھا رہا تھا اور دوسروں کے لئے زیادہ چھوڑ رہا تھا۔ بھائی بندی کا یہ مظاہرہ دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی ہلکی سی پھوار اُتر آئی۔ خدا کا شکر کہ کسی کی نظر نہیں پڑی۔ کھانے کے بعد چائے کے ایک کپ نے بہت سکون دیا۔ موسم اور کھانے کا وہ نظارہ تصوّر میں نہیں لایا جا سکتا، صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

آنکھوں اور پیٹ کو بھر کر پونے پانچ بجے ہم یہاں سے چل پڑے۔ کچھ دیر بعد کھانے نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا اور سب پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ حسبِ معمول کچھ لوگ باتوں میں کھو گئے اور کچھ ارد گرد کے نظاروں میں۔ بارش کی وجہ سے کہیں کہیں سڑک خراب ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ بس رکی تو ہمارے گروپ میں سے پانچ، چھ ارکان بس کی چھت پر چڑھ گئے۔ بقول اُن کے یہ بھی ایک زبردست ایڈونچر ثابت ہوا۔ خراب سڑک، بس کی
تیز رفتاری، بارش، اور ہوا ۔۔۔ اِن سب سے انہوں نے خوب مزا لیا۔ اتنی بلندی پر بس جب کسی تنگ موڑ سے مڑتی تو چھت سے چلّانے کی آوازیں اندر تک سنائی دیتیں۔ یہ سب وہی جنونی تھے جو گھروں کو خیر باد کہہ کر بارہ دنوں کے لئے وحشتوں کے مزے لینے سفر پر نکلے تھے۔

رات نو بجے چِلّاس کے ہوٹل پر کھانا کھایا اور دس بجے کے قریب نکل پڑے۔ بس کے ایک مسافر کی طبیعت خراب ہو گئی تھی جسے ہسپتال بھیجنا پڑا۔ دیر ہو جانے کی وجہ سے ہمارے قافلے کی دوسری بسیں پہلے ہی جا چکی تھیں۔ رات کے اندھیرے میں ہماری بس اکیلی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئی۔ آدھی رات کے قریب ہم استور میں داخل ہوئے۔ چھوٹی سی سڑک، ارد گرد پہاڑ، اور گھپ اندھیرا۔ بس کی بتیوں کی روشنی میں سڑک کے کچھ حصے کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سنا تھا کہ استور پہاڑوں اور دریا کی ایک ڈرامائی دُنیا ہے۔ سڑک کی خرابی اور بندش کی وجہ سے ہمیں کافی دیر ہو چکی تھی ورنہ ہم شام کے قریب یہاں پہنچ جاتے تو مٹیالے پہاڑوں سے محظوظ ہو سکتے تھے۔ 

کہیں تو سڑک اتنی تنگ ہو جاتی کہ بس کو رک کر چلنا یا مڑنا پڑتا۔ رات ایک بجے کے قریب دریا کا شور سنائی دیا۔ ہماری بس دریا کے کنارے چلتی اپنے پڑاؤ کی جانب جا رہی تھی۔ بپھرا ہوا، چنگھاڑتا، شور مچاتا دریائے استور کسی نامعلوم منزل کی جانب بہتا جا رہا تھا۔ رات کے اُس پہر دریا کی وہ آواز بہت پُر ہیبت لگ رہی تھی۔ کہیں تو سڑک بہت نیچی ہو جاتی کہ دریا کا کنارا چند فٹ ہی رہ جاتا۔ دریا کی پُھنکاریں سب پر اثر کر رہی تھیں۔ کچھ لوگ سو رہے تھے، کچھ دَم سادھے بیٹھے تھے، اور کچھ رات کی تاریکی میں کہیں گم ہو گئے تھے۔دل چاہ رہا تھا کہ کچھ روشنی ہوتی تو دریا کی اِس پُر ہیبت روانی کا نظارہ کیا جا سکتا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ ہماری موجودگی اور بس کی روشنیاں دریا کی روانی میں مخل ہو رہی ہیں اور دریا غصّے سے بپھرا جا رہا ہے۔

شکر خدا کا کہ یہ طویل سفر رات دو بجے ختم ہوا اور ہم استور میں نیٹکو بس کے اڈے پر اترے۔ بس کے جھٹکوں سے جسم کے جو اعضاء اِدھر اُدھر کھسک گئے تھے، اُن کو واپس سمیٹا۔ ٹانگیں جو مسلسل بیٹھنے سے سُن ہو گئی تھیں اور جسم سے جُڑی لگ ہی نہیں رہی تھیں، اُن کو دوبارہ زندہ کیا۔ وقاص، یاسر، اور ایک دو اور ارکان ہوٹل کا بندوبست کرنے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد خوشخبری سنی کہ ایک ہوٹل میں ہال کمرہ مل گیا ہے۔ لیکن یہ خوشخبری زیادہ دیر ساتھ نہ دے سکی اور معلوم ہوا کہ ہوٹل کے مالک نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا ہے۔ ایک آدھ اور جگہ کوشش کی مگر بات نہ بنی۔ کافی رات ہو چکی تھی اور دوسرا اتنے زیادہ لوگوں کو ٹہرانے کے لئے جگہ کم ہی ہوٹلوں کے پاس تھی۔ آخر کار یہی طے پایا کہ رات کے چند گھنٹے بس میں ہی گزار لئے جائیں۔ ڈرائیور سے بات کی تو اُس خدا ترس نے ہم وحشتوں کے متلاشیوں کو بس میں رہنے کی اجازت دے دی۔ مسافر اُتر چکے تھے اور بس خالی ہو گئی تھی۔ سفر کی کچھ تھکان اُتارنے کے لئے ہم سب نشستوں پر کُھلے کُھلے لم لیٹ ہو کر سو گئے۔

(باقی انشاء اللہ اگلی قسط میں ۔۔۔۔۔۔۔)


Photos of Mazeno Base Camp - Nanga Parbat - Pakistan


1/10
2/10
3/10
4/10
5/10
6/10
7/10
8/10
9/10
10/10

Please Do Subscribe and Like This Post. Thanks for Reading :)

0 Comments