Meray Safar Namay - Wazir Khan Mosque - Lahore - Pakistan

میرے سفرنامے  - مسجد وزیر خان - لاھور ۔ پاکستان


مسجد کا نام ۔ مسجد وزیر خان 
شھر ۔ لاھور
صوبہ ۔ پنجاب
تعمیر ۔ 1641ء
بحکم ۔ شیخ علم الدین انصاری 
گنجائش ۔ 10000 نمازی

1997 میں پہلی بار جب میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں میڈیکل کالج کے اپنا داخلہ فارم جمع کروانے گیا تھا، پہلی بار اس مسجد کو دیکھنے گیا تھا اور اس وقت مجھے اس مسجد نے بادشاھی مسجد سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ مسجد کے اندرونی کام بالخصوص ارکیٹیکچر اور فنون لطیفہ کا تمام پہلو بہترین طریقے سے اجاگر کئئے گئے ہیں اور انسان عقل مبہوت اور آنکھیں۔ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں بلاشبہ بنانے والے کی محبت اس عظیم الشان مسجد میں رب کے بناےرنگ دکھاتی ہے۔ لاھور کیونکہ زیادہ تر رشتہ دارون کی وجہ سے ایک قسم کا دوسرا گھر بھی ہے چنانچہ متعد بار جانے کا اتفاق بھی ھوتا رہتا ہے۔ #پاکستان_کی_مساجد

#Masjids_of_Pakistan #Masjids_of_World #MajidWazirKhan #WazirKhanMosque


یہ عظیم الشان مسجد اندرون شہر لاہور کے دہلی دروازہ، چوک رنگ محل اور موچی دروازہ کے وسط میں تقریباً چند سو قدموں پر واقع ہے۔ دہلی دروازے سے براستہ شاہی گزرگاہ سیدھے چلتے جائیں تو کچھ فاصلے پر مسجد وزیر خان نظر آنے لگتی ہے۔ یہ مسجد نقش و نگار میں کاری گری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسجد وزیر خان سلطنت مغلیہ کے عہد میں تعمیر کی جانے والی نفیس کاشی کاری و کانسی کاری پر مشتمل خوبصورت مسجد ہے جو بادشاہی مسجد کی تعمیر سے 32 سال پہلے 1641ء میں مکمل ھوئ.

یہ قابل دید مسجد کسی مغل شہنشاہ نے نہیں بلکہ شیخ علم الدین انصاری،  جو پیشے کے لحاظ سے طبیب تھے اور نوعمری میں شاھجہان کے شاھی طبیب بھئ رہے تھے، نے تعمیر کروائی۔ جنوری 1621ء میں وہ مغل دارالحکومت آگرہ پہنچے‘ ان دنوں ملکہ نور جہاں علیل تھیں۔ انہوں نے ملکہ کا علاج کیا تو ملکہ صحت یاب ہو گئیں۔ اس کے صلے میں انہیں وزیر خان کے خطاب سے نوازا گیا۔

شاہ جہاں کے عہد میں وزیر خان کو ’’امراء الامراء‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا اور جب شاہ جہاں لاہور آیا تو اس نے وزیرخان کو لاہور کا گورنر مقرر کردیا۔ وزیر خان 1632ء سے 1639ء تک لاہور کے حاکم کے عہدے پر فائز رہے۔ شاہ جہاں کے دور میں وزیر خان نے 1635ء میں اس مسجد کی بنیاد رکھی‘ بازار دہلی دروازے کو آباد کیا اور مزار سید محمد اسحقٰ المعروف میراں بادشاہ کا پختہ حجرہ جو زیارت گاہ عام تھا کو مسجد میں شامل کر لیا۔ وزیر خان نے شاہی انعامات کی رقم کو مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا اور یوں اپنا نام رہتی دنیا تک چھوڑ گئے۔

مہاراجا رنجیت سنگھ نے اپنے دور حکومت 1801ء سے 1839ء تک لاہور کی تقریباً تمام تاریخی عمارات کو نقصان پہنچایا۔ بیشتر تاریخی عمارات سے سنگ سرخ اور سنگ مرمر اتروا لیا گیا تھا جبکہ بعض مقامات کو منہدم کروا دیا لیکن مسجد وزیر خان اس کے نقصان سے اس لئے بچ گئی کیونکہ وزیر خان کے گورو ارجن سے بہت اچھے تعلقات تھے۔

مسجد وزیر خان‘ لاہور کی قدیم‘ عالیشان اور لاثانی مسجد ہے جس کی شہرت اور تذکرہ یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔ تاریخ اسے لاہورکا فخر قرار دیتی ہے۔ مسجد کی عمارت پختہ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے۔ سنگ سرخ کا استعمال کافی کیا گیا ہے۔ مسجد میں داخل ھونے کے لئے دو دروازے ہیں‘ ایک صدر دروازہ جو مشرق میں ہے‘ دوسرا شمال مشرقی سمت واقع ہے۔ مسجد کا صحن وسیع ہے جس میں سرخ اینٹوں کا فرش لگایا گیا ہے۔ صحن کے درمیان میں وضو کرنے کے لئے حوض بنا ہوا ہے۔ مسجد کی مشرقی، جنوبی اور شمالی سمت حجرہ نما کمرے بنے ہوئے ہیں جن کی تعداد 32 ہے۔

مسجد کی دیواروں پر ایسی نقاشی کی گئی ہے کہ بڑے بڑے نقاش نقاشی کا سبق لینے اس مسجد میں آتے ہیں‘ کتبوں پر عربی اور فارسی حروف سے ایسی خطاطی کی گئی ہے کہ نامور خطاط بھی دیکھ کرحیران رہ جاتے ہیں۔ انگریزوں کے ابتدائی دور سے اب تک میو سکول آف آرٹس جسے اب نیشنل کالج آٰف آرٹس کہا جاتا ہے کے طلباء کو تزئین کاری سکھانے کے لئے یہاں لایا جاتا ہے۔ اپریل 1899ء میں جب لارڈ کرزن وائسرائے ہند نے مسجد کا دورہ کیا تو اس کی تزئین و آرائش اور تعمیراتی معیارات سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس اعتراف کے طور پر اس نے اخروٹ کی اعلیٰ لکڑی کا خوبصورت منبر میو سکول آف آرٹ کے ماہر کاری گروں سے بنوایا اور تحفتاً مسجد کو پیش کیا۔ ایک سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر منبت کاری کا یہ اعلیٰ نمونہ آج بھی مسجد کے ایوان میں موجود ہے۔

مسجد کے صدر دروازے سے داخل ہوں تو ایک طویل ڈیوڑھی نما راستہ ہے۔ اس حصے میں چاروں طرف بلند محرابی دروازے موجود ہیں۔ درمیان میں ایک بلند گنبد ہے جس میں زنجیر سے ایک خوبصورت فانوس لٹکا ہوا ہے۔ مسجد کے دو صحن ہین ایک صحن خاص اور دوسرا صحن عام ہے۔ صحن خاص میں پانچ محرابیں ہیں‘ ان میں نفیس کاشی کاری کی گئی ہے۔ مسجد کے پانچ گنبد اور چار مینار ہیں‘ ہر مینار کی بلندی 107 فٹ ہے‘ میناروں پر گلکاری اور نقاشی کا دیدہ زیب کام کیا گیا ہے جو صدیاں گزرنے کے باوجود دلکش دکھائی دیتا ہے۔ وزیر خان مسجد مغل فن تعمیر میں فن آرائشی کا ایک انوکھا مرحلہ پیش کرتا ہے ، خاص طور پر متنوع گلیجڈ ٹائل موزیک کام جو 16 صدی کے سندھ کے ٹھٹھہ میں شاہجہان مسجد سے بظاہر متعارف کرایا گیا تھا۔

مسجد وزیر خان کے صحن میں حضرت سید محمد اسحاق گاذرونی المشہور بہ میراں بادشاہ کا مزار ہے۔ اِن کا تعلق گاذرون سے تھا۔ آپ786ھ/1384ء میں فیروز شاہ تغلق کے عہدِ حکومت میں فوت ہوئے اور اِن کی تدفین اِسی مقام پر کی گئی تھی۔ حضرت کی قبر زمین دوز تہ خانہ نما ایک مربع کمرے میں ہے جس کے لیے مسجد کے صحن سے آٹھ سیڑھیاں نیچے کی جانب کو اُترنا پڑتا ہے۔ زمین دوز تہ خانے کی جانب اُترنے والی سیڑھیوں پر ایک چھوٹی بارہ دری بنائی گئی جس کی چھت منقش ہے۔ زمین دوز تہ خانہ نما کمرے مین  درمیان میں قبر موجود ہے۔ وزیر خان نے مزار کی بالائی سطح پر ہی مسجد کی بنیاد رکھی اور اِس مزار کو عمارت کے ساتھ ہی مسجد میں شامل کر لیا تھا۔

مسجد کی تکمیل کے بعد وزیر خان نے ایک وصیت نامہ تحریر کروایا جو ان کے بعد ان کی اولاد کو منتقل ہوتا رہا۔ وصیت نامہ کی تحریر کو نور احمد چشتی نے اپنی کتاب ’’تحقیقات چشتی‘‘ اور سید محمد لطیف نے اپنی کتاب ’ِ’تاریخ لاہور‘‘ میں شامل کیا ہے۔ اس وصیت کے مطابق مسجد کا انتظام طویل عرصہ تک متولیوں کے ہاتھ رہا لیکن اب اس کا انتظام محکمہ اوقاف حکومت پنجاب کے پاس ہے۔ 14 دسمبر 1993ء کو یونیسکو نے مسجد وزیر خان کوعالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جو اس کی اہمیت کا ثبوت ہے۔

(تحریر ذاتی سفر و مشاھدات اور متفرق اقتباسات پر مبنی ہے۔) 
#ثاقب_جہانگیر 
#Saqib_Jehangir



Photos of Masjid Wazir Khan - Lahore - Pakistan



1/10

2/10

3/10

4/10

5/10

6/10

7/10

8/10

9/10

10/10


Please Do Subscribe and Like This Post.

Thanks for Reading :)

0 Comments