میرے سفرنامے - جامع مسجد بھونگ - صادق اباد ۔ پاکستان
مسجد کا نام : جامع مسجد بھونگ
شھر : صادق اباد
صوبہ : پنجاب
تعمیر : 1932 تا 1982
بحکم : سردار رئیس غازی محمد
گنجائش : 1000 نمازی
جون 2009ء کو بسلسلہ ملازمت ایف ایف سی بیڈ آفس سے ماچھی گوٹھ پلانٹ پر کاسٹ آڈٹ کی اسائمنٹ کے سلسلے میں جانا ھوا۔ ایک ھفتے گزر جانے کے بعد میرے کولیگ زبیر مرتضی اور جبار علی خان نے پروگرام بنایا کے کمپنی کے باغ احمد پور لمہ اور گڈو بیراج ۔ سندھ کو دیکھنے چلتے ہین ۔ احمد پور لمہ میں دو گھنٹے آموں کی پارٹی کرنے کے بعد جب گڈو کی طرف جانے لگے تو راستے میں زبیر نے کہا کہ بھونگ چلتے ہیں اپ کو ایک مسجد دکھاتے ہیں ۔ مجھے تو کیونکہ ویسے ہی نئی نئی جگہیں دیکھنے کا اشتیاق رہتا تھا تو فورا حامی بھر لی اور تقریبا 15 منٹ میں ہم وہاں پہنچ گئے۔ ایک بھرے بازار کے درمیان سے ھو کر آخر میں مسجد کی راستہ ایا۔ یہ علاقہ کچے کا علاقہ ہے کیونکہ پاس ہی دریاے سندھ اپنی اب و تاب کے ساتھ گزرتا ہے۔ اور مغرب کے بعد زیادہ محفوظ بھی نہی ہے۔ #پاکستان_کی_مساجد
#Masjids_of_Pakistan #BhongMasjid #BhongMosque #Masjids_of_World
یہ شاھکار مسجد کو باھر سے اللہ کی شان بیان کرتی نظر آتی ہے ۔ ارد گرد کی غریب آبادی اور سرمئی علاقے کے بعد ایک دم ہی جیسے رنگوں کی دنیا سامنے ا گئ ھو۔ مسجد خود بھی عام مسجد سے جدا تھی اور میری زندگی میں تمام مساجد سے الگ تھلک رعنائ بیان کرتی ھوئ جس میں بنانے والے کا رب سے عشق عیاں نظر آتا ہے۔ مسجد میں ایک گھنٹہ رکے ظہر ادا کی اور پھر ہم سب گڈو بیراج کی طرف چلے گئے جہاں عصر کے بعد ہم واپس پلانٹ سائٹ چلے گئے ۔ اس مسجد کو دیکھنے کی چاہ اتنی تھی کہ چار بار اور دیکھی دوبارا جا کر اور اب تو میری رہائش ہے ہی پلانٹ سائٹ پر تو جب چاھتے ہیں اس کو دیکھنے نکل جاتے ہیں ۔
بھونگ مسجد تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں واقع ایک گاوں بھونگ میں موجود ہے۔ یہ مسجد بہاولپور سے240 کلومیٹرز جنوب اور صادق اباد سے تقریباً 25 کلومیٹر دور مغرب میں واقع ہے. اپنے عمدہ ڈیزائن، منفرد طرزِ تعمیر اور جاذبِ نظر خطاطی کی وجہ سے اس مسجد کو خاص شہرت حاصل ہے اور 1986 میں اس کو آغا خان ایوارڈ براے ارکیٹیکچر سے بھی نوازا گیا ۔
مسجد کے بارے مین جب معلوم کیا تو پتا چلا کہ سردار رئیس غازی محمد نے یہ مسجد 1932 میں تعمیر کروانا شروع کی۔ آپ کے جد امجد حضرت بہاوالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کے خلفا میں سے تھے۔ رئیس محمد غازی اعزازی مجسٹریٹ اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ کثیر مال و دولت ہونے کے باوجود انہوں نے درویشانہ زندگی گزاری اور دینی تعلیم کا حصول، عبادت و ریاضت، سماجی کاموں اور مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر ان کی زندگی کا مشن رہا۔ رئیس غازی محمد نے اپنے خاندانی محل نما گھر کے قریب 1932 میں بھونگ مسجد کی تعمیر کے لئے ہدایات دیں اور کثیر سرمایہ فراہم کیا۔ تعمیر کے ایک ایک مرحلے پر انہوں نے ذاتی دلچسپی لی۔ مسجد کی تعمیر کی نگرانی کے لئے ماسٹر عبدالحمید کو مقرر کیا جنہوں نے نہایت محنت اور توجہ سے مسجد کی تعمیر کی نگرانی کی۔
پورے پاکستان اور ہندوستان سے جمع ہوئے ماہرین کا کام (راجستھان سے ماسٹر میسنز اور کاریگر ، کراچی سے خطاطی اور مصور) ، اس کمپاؤنڈ کو نصف صدی کی مدت میں اسکو ڈیزائن اور تعمیر کیا گیا تھا۔ معماروں نے قریب ہی لاہور ، اسی طرح ایران ، اسپین اور ترکی سے بھی طرز کے عناصر لئے اور انھیں 1940ء کی دہائی کے مغربی نو آبادیاتی عناصر کے ساتھ ملا لیا۔ مسجد جدید اور مقامی فن خطاطی کے دلکش مناظر پیش کرتی نظر آتی ہے۔
مسجد کی تعمیر کےلئے آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور دیگر ممالک سے سنگِ سرخ، سنگِ مر مر، سنگِ خارا، سنگِ سرمئی اور سنگِ سیاہ منگوائے گئے۔ ان پتھروں کو کاٹنے اور تراشنے والے، ٹائلوں پر پھول بنانے والے، میناکاری و خطاطی کرنے والے، صندل کی لکڑی پر باریک اور نفیس کام کرنے والے، گلکاری کرنے والے، سونے کے پھول بنانے والے سیکڑوں کاریگروں کی خدمات حاصل کی گئی تھی۔
بھونگ مسجد میں ایک وسیع دارالمطالعہ، مدرسہ اور وہ حجرہ بھی موجود ہے جہاں رئیس غازی محمد عبادت کیا کرتے تھے۔ مسجد میں داخل ہونے والا مرکزی دروازہ مشہد میں حضرت امام رضا کے مزار کے صدر دروازے جیسا ہے۔ اندر کئی ایکڑ پر مشتمل فواروں سے مزین وسیع لان ہے۔ راہداری سے گزر کر سیڑھیاں چڑھنے کے بعد مسجد کا صحن ہے جو سنگِ مرمر اور سنگِ سیاہ سے آراستہ ہے۔ یہاں بیک وقت دو ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ایک بڑے گنبد کے نیچے خواتین کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ مخصوص ہے جو خواتین کی جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔ مسجد کے تمام دروازے ہاتھی دانت کے نفیس اور باریک کام سے مزین ہیں۔
مسجد کے برآمدے میں تقریباً 500 نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔یہ برآمدہ اٹھارہ ستونوں پر مشتمل ہے۔ ہر ستون ایک ہی جیسے قدرتی رنگ پر مشتمل آٹھ فٹ بلند ہے۔ مرکزی محراب کی تزئین و آرائش میں خالص سونا‘ چاندی اور قیمتی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ صندل کی لکڑی کا نہایت نفیس اور دیدہ زیب کام کیا گیا ہے۔ دلکش نقش و نگار‘ خوبصورت گلکاری اور منفرد ڈیزائن پر مشتمل یہ مسجد سیاحوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے.
نصف صدی میں ہزاروں کاریگروں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا جن کا تعلق پاکستان اور انڈیا سے تھا۔ مسجد کی تعمیر کے دوران کئی کاریگر عمر رسیدہ ہو گئے، کئی انتقال کر گئے۔ ان کے بیٹوں اور بعض کے پوتوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ یوں تین نسلوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ تمام کاریگروں کو ان کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اُجرت دی جاتی تھی۔ ماہر کاریگروں کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا بلکہ ان کے بچوں کی شادیوں کے اخراجات رئیس غازی محمد ادا کرتے تھے.
مسجد کی تعمیر میں مصروف کاریگروں کے قیام و طعام کا انتظام بھونگ میں ہی کیا گیا تھا۔ بہت سی مراعات بھی ان کاریگروں کو حاصل تھیں۔ تب صادق آباد سے بھونگ تک مناسب ذرائع نقل و حمل موجود نہ تھے۔ نہ ہی پختہ سڑک تھی۔ لہٰذا بھاری مشینری اور تعمیراتی سامان صادق آباد ریلوے اسٹیشن سے بھونگ تک تقریباً 20 کلومیٹر کچے راستوں پر بیل گاڑیوں اور اونٹوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔
مسجد کی تعمیر کے لئے کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ایک خاکہ رئیس غازی محمد کے ذہن میں تھا جس کے مطابق تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ رئیس غازی محمد مختلف ممالک میں جاتے، وہاں کی مساجد دیکھتے اور جو چیز پسند آ جاتی اُس کے مطابق مسجد کی تعمیر میں تبدیلی کرواتے رہتے۔ اس طرح مسجد کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلی کی گئی ۔کئی حصوں کو دوبارہ بلکہ سہ بارہ بھی نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ 1950ء میں ایک نئے مسئلے کی نشاندہی ہوئی کہ سیم کی وجہ سے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اس خطرے کے پیش نظر تب تک بننے والی تمام عمارت کو گرا دیا گیا اور 20 فٹ بلند ایک چبوترہ بنا کر اُس پر نئے سرے سے مسجد کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس سے مسجد کی پائیداری کے ساتھ خوبصورتی اور جلال و عظمت میں بھی اضافہ ہو گیا۔
مسجد کی تعمیر کے دوران ہی 1975ء میں رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا۔ اُن کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے رئیس شبیر محمد نے مسجد کا کام کو آگے بڑھایا جو خود بھی درویش صفت انسان تھے۔ 1982ءمیں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ دنیا بھر سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے آنے لگے۔ اس کی خوبصورتی اور انفرادیت کی وجہ سے 1986ءمیں اسے تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔ 12 مئی 2004ء کو حکومت پاکستان نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔
پاکستان میں جتنی بھی مساجد میں نے دیکھ رکھی ہیں ان سب میں میری پسندیدہ مسجد یہی ہے۔ اسلئیے تصاویر بھی زیادہ ہیں۔
(تحریر ذاتی مشاھدات اور متفرق معلومات پر مشتمل ہے۔)
#ثاقب_جہانگیر
#Saqib_Jehangir
Photos of Bhong Mosque - Sadiqabad- Pakistan
1/10
2/10
3/10
4/10
5/10
6/10
7/10
8/10
9/10
10/10
Please Do Subscribe and Like This Post.
Thanks for Reading :)
0 Comments